تاجُ الشریعہ اور یادِ مدینہ مولف: مولانا عمران رضا مدنی بنارسی نبی اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کو حضور ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز سے محبت ہوتی ہے۔ حضرت تاجُ الشریعہ نہ صرف عاشقِ رسول بلکہ عاشقِ رسول بنانے والے تھے، آپ سے وابستہ ہو کر ہزاروں کے دل عشقِ رسول سے سرشار ہو گئے۔ چونکہ شہرِ مصطفیٰ مدینۂ منورہ کو خاص نسبت ہے نبی اکرم ﷺ سے، خود ہمارے آقا ﷺ مدینۂ منورہ سے حد درجہ محبت فرمایا کرتے تھے، تو عاشقانِ رسول بھی مدینۂ منورہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں۔ اس جہت سے حضور تاجُ الشریعہ کی ذات کو دیکھیں تو آپ کو بھی مدینۂ منورہ سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ صرف آپ کے نعتیہ دیوان "سفینۂ بخشش" کو دیکھیں تو معلوم ہو کہ جگہ بہ جگہ محبتِ مدینہ پر اشعار یہ بتا رہے ہیں کہ آپ کو عشقِ مدینہ کس قدر حاصل تھا۔ فراقِ مدینہ میں آپ فرماتے ہیں: فرقتِ طیبہ کی وحشت دل سے جائے خیر سے میں مدینے کو چلوں وہ دن پھر آئے خیر سے دل میں حسرت کوئی باقی رہ نہ جائے خیر سے راہِ طیبہ میں مجھے یوں موت آئے خیر سے میرے دن پھر جائیں یا رب شب وہ آئے خیر سے دل میں جب ماہِ مدینہ گھر بنائے خیر...
मुक़्तदी (यानी जो शख्स इमाम के पीछे नमाज़ पढ़ रहा हो) के लिए सलाम फेरने का सुन्नत तरीका क्या है? بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ सुन्नत यह है कि जो मुक़्तदी शुरू से इमाम के साथ नमाज़ में शरीक है, वह इमाम के सलाम फेरते ही अपना पहला सलाम फेर दे। यानी जब इमाम ने सलाम फेरना शुरू किया, तो इमाम का सलाम खत्म होने से पहले मुक़्तदी सलाम फेरना शुरू कर दे। यही तरीका इमाम-ए-आज़म रज़ी अल्लाहु अन्हु के नज़दीक भी सुन्नत है और मुक़्तदी को इसी पर अमल करने का हुक्म है। बुखारी शरीफ में है "وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَسْتَحِبُّ إِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ أَنْ يُسَلِّمَ مَنْ خَلْفَهُ... عَنْ عِتْبَانَ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ" हज़रत इब्ने उमर पसंद करते थे कि जब इमाम सलाम फेरे, तो मुक़तदी भी सलाम फेरे... हज़रत इत्बान से मरवी है, कहते हैं कि हमने नबी पाक ﷺ के साथ नमाज़ पढ़ी, जब हुज़ूर ﷺ ने सलाम फेरा, तो हम...
سُوال : چور بازار سے چیزیں خریدنا کیسا؟ (واٹس ایپ کے ذَریعے سُوال) جواب : اگر واقعی وہاں چوری کیا ہوا مال بِک رہا ہو تو اس کا خریدنا حرام ہے بلکہ اگر ظَنِّ غالِب بھی ہو کہ یہ چوری کا مال ہے تب بھی اسے خریدنا ناجائز ہے ۔ ہو سکتا ہے وہاں چوری کیا ہوا مال ہی بِکتا ہوجبھی تو اس کو چور بازار کہا جا رہا ہے ۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : چوری کا مال دانِستہ (یعنی جان بوجھ کر ) خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مَظْنُوْن (یعنی مشکوک)ہو جب بھی حرام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۱۷ / ۱۶۵ رضا فاؤنڈیشن مَرکز الاولیا لاہور)
Comments
Post a Comment